بلوچستان کے ساحلی علاقوں گوادر، پسنی اورماڑہ میں مینگروو کی شجرکاری میں خواتین کا اہم کردار

 خواتین کا پودوں سے لگاٶایک فطری عمل ہی اور یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کی خواتین نے بھی اپنی اسی محبت کا انوکھا ثبوت پیش کیا ہے جسکی بدولت آج پاکستان کے صوبے بلوچستان کے ساحلی علاقوں گوادر، پسنی اورماڑہ میں مینگروو کی شجرکاری میں خواتین کا اہم کردار نظر آتا ہےاور اسی وجہ سے خواتین کو ماحولیاتی تحفظ میں بہت تیزی سے شامل کیا جارہا ہے۔






بلوچستان میں خواتین کا گھر سے نکل کر کام کرنا ایک پیچیدہ موضوع ہے جو مختلف سماجی، ثقافتی، اور اقتصادی عوامل سے متاثر ہوتا ہے۔یہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بلوچستان کی قدیم روایات اور قبائلی نظام میں خواتین کے لیے گھر کی چار دیواری میں رہنا زیادہ عام اور قابل قبول سمجھا جاتا ہے، اور اکثر ان کے لیے گھر سے باہر جا کر کام کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔

لیکن اسکے باوجود سونمیانیی کے ساحلی علاقے میں خواتین کا کردار قابل ستاٸش ہے جس کی بدولت آج2000 ایکڑ پر  ہزاروں کی تعدادمیں مینگروو کی افزاٸش کا عمل جاری ہے۔

کمیونٹیز ( برادری ) مینگرووز کی پیداوار اور تحفظ میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، کیونکہ ان کی شمولیت ان اہم ماحولیاتی نظاموں کی پائیداری کے لیے اس لیۓ بھی اہم ہیں کیونکہ وہ وہاں کے وساٸل کی موجودگی میں باآسانی گھل مل کر کام انجام دیتے ہیں۔

مینگروو کے علاقوں کے قریب رہنے والی برادریاں اکثر محافظ کے طور پر کام کرتی ہیں۔ اور یہی نہیں بلکہ وہ مینگروو کے جنگلات کو غیر قانونی کٹائی، زمین کی تبدیلی اور آلودگی سے بچانے میں بھی اہم ثا بت  ہوتے  ہیں۔

 اس کے علاوہ یہی مقامی کمیونٹیز اکثر تباہ شدہ علاقوں کی بحالی کے لیے مینگرووز لگانے میں شامل ہوتی ہیں اور یہ ان کے لیۓ بہت اہم ہے کیونکہ مینگرووز کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرکے اور ساحلی خطوں کو کٹاؤ سے بچانے کے ذریعے موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے میں اہم کردار نبھاتے ہیں۔

دوسری طرف یہی مینگرووز دراصل ساحلی تحفظ،حیاتیاتی زندگی اور مقامی لوگوں کے معاش میں ایک کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ 

خواتین، جو اکثر اپنی روزی روٹی کے لیے ساحلی ماحولیاتی نظام پر انحصار کرتی ہیں، مینگرووز کی شجرکاری، پرورش اور حفاظت میں اپنا حصہ ڈال کر تباہ شدہ مینگروو کے جنگلات کو بحال کرنے، موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے، اور ماہی گیری اور دستکاری جیسی سرگرمیوں کے ذریعے پائیدار معاش کو فروغ دینے میں مدد کرتی ہیں۔ 

خواتین کو سماجی اور اقتصادی طور پر بااختیار بنانا اس وقت ممکن ہے جب ان کے لٸے  ایسے اقدامات کٸے جاٸیں جن میں ان کے تحفظ کی کوششوں، تربیت فراہم کرنے، اور ماحولیاتی ذمہ داری کے بارے میں ان کے علم میں اضافہ کیا جاۓ۔  مزید برآں، تنظیمیں اور مقامی حکومتیں اکثر خواتین کے ساتھ تعاون کرتی ہیں تاکہ ان منصوبوں کی کامیابی کو یقینی بنایا جا سکے۔

 سونمیانی میں بھی اسی بات کےپیش نظرخواتین کو اس اہم پروگرام میں شامل کیا گیا جس کی بدولت تقریباً 30ہزار مینگروو کے پودے میانی ہوور میں لگاۓگۓہیں اور 4 نرسریوں میں سے ایک نرسری صرف خواتین کی مدد سے بناٸ گٸ  ہے۔

خواتین کی یہ شرکت ماحولیاتی چیلنجوں سے نمٹنے اور بلوچستان میں پائیدار ترقی کو فروغ دینے میں ان کے اہم کردار کو اجاگر کرتی ہے۔  

نورجہاں، جو کہ سونمیانی کی ہی رہنے والی  ہیں ان سے بات کرنے پر انھوں نے بتایا کہ کس طرح وہاں کی خواتین نے مینگرووز کی افزاٸش میں حصہ لیا انھوں نے کہا کہ ان کےگروپ میں تقریباً 25 خواتین کام کرتی ہیں جنہوں نے ڈام،بھیڑا،سونمیانی کے تقریباً 45 ہزار حصہ پر کام کیا ہوا ہے اور یہ کہ یہ نرسری بھی ان ہی خواتین کے ذریعے ہی لگاٸ گٸ ہے انھوں نے بتایا کہ ہم روزانہ کشتیوں میں یہاں آتے تھے۔

 ”آٸ یو سی این کے ساتھ وہ 2006 سے کام کر رہی ہیں اور ان کے مطابق ان لوگوں نے جب بھی کال کیا بلایا میں دوڑی  بھاگی آ جاتی ہوں اس کے علاوہ نورجہاں نے بتایا کہ ان کا گروپ پرائم منسٹر عمران خان کے بلین ٹری پروگرام کا بھی حصہ بن چکاہے۔ “

 ان کے مطابق اکنامک فارم میں ایک  ویڈیو ایشیا کے ساحلی علاقوں کے حوالے سے پیش کی گٸ تھی اس میں نورجہاں کا انٹرویو بھی شامل تھا جس کے بعد عمران خان نے بلوچستان کو فوکس کیا تھا اور پھروہ  یہاں آۓ تھےاور بلین ٹری کا پروگرام یہاں کیا تھا نور جہاں نے بتایا”اس وقت بھیڑا کے مقام پر عمران خان پراٸم منسٹرآیا تھا  اورمیں اس میں اپنی پوری خواتین کی ٹیم لے کر  وہاں گٸ تھی اور پھر اس کے بعد جام کمال کی جانب سےمجھے 5000 کا انعام بھی بھجوایا گیاجو کہ ٹیم لیڈر ہونے کے ناطےمیری حوصلہ افزاٸ کے لیۓ تھا۔“ 

”راٸزوفر“ مینگروو پودے کی ایک قسم ہے اورپاکستان میں اس کی افزاٸش بہت اچھے سے ہورہی ہےاس کا موسم اپریل سے جون میں ہوتا ہے، دسمبر کےمہینے میں اسکے پھول نکلنا شروع ہوجاتے ہیں اور مارچ تک اسکی دیکھ بھال کی جاتی ہےاورجیسے ہی اپریل میں یہ پھول بالغ ہوتے ہیں انھیں وہاں سےحاصل کر کی ان کوشجرکاری کیلۓبھیج دیا جاتا ہے 2021 سے 2023 تک اس پر بہت کام ہوا ہی جس کی بدولت آج 85% مینگروویہاں کامیابی سے افزاٸش کر رہا ہے۔

مجموعی طور پر اگر غور کیا جاۓ تو ماحولیاتی نظاموں کے پائیدار استعمال اور بحالی کو یقینی بنانے کے لیے مینگروو کی پیداوار اور تحفظ میں کمیونٹی کی شمولیت ضروری ہے۔ اور اس کے لیۓاگر ہم  تعلیم، اقتصادی متبادلات، اور مشترکہ انتظامی ذمہ داریوں کے ذریعے مقامی آبادی کو بااختیار بنانے پر توجہ دیں تو یہ ایک صحت مند مینگروو ماحول کا باعث بن سکتا ہے جو کہ لوگوں اور فطرت دونوں کو فائدہ پہنچانے میں مدد دیسکتا ہے۔

مینگرووز کے جنگلات ساحلی برادریوں کی افزائش اور ترقی میں نہ صرف  اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ یہ ساحلی برادریوں کو مچھلی، جھینگے، کیکڑے اور دیگر سمندری حیات بھی فراہم کرتے ہیں، جنہیں فروخت کرکے یا کھانے کے طور پر استعمال کرکے ان کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ برادریاں ماہی گیری کے علاوہ مینگرووز کے مختلف حصوں کو مختلف مصنوعات میں تبدیل کرکے بھی معاش کما تی ہیں۔یہی نہیں بلکہ مینگروو ماحولیاتی تحفظ میں ایک نمایاں کام یہ سرانجام دیتے ہیں کہ یہ ساحلی علاقوں کو سمندری طوفانوں، سیلاب، اور کٹاؤ سے بچاتے ہیں۔ اس حفاظتی کردار کی بدولت برادریوں کو قدرتی آفات کے نقصانات سے محفوظ رہنے میں مدد ملتی ہے، جس سے ان کے معاشی ترقی کو فروغ ملتا ہے۔

دوسری جانب ہم کہ سکتے ہیں کہ مینگرووز کے قدرتی حسن اور ماحولیاتی اہمیت کی وجہ سے ان علاقوں میں سیاحت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ ساحلی برادریاں ماحولیاتی سیاحت (ecotourism) کو فروغ دے کر آمدنی حاصل کر سکتی ہیں۔  ساحلی سمندر مینگرووز کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے میں مدد دیتے ہیں، جس کی وجہ سے عالمی سطح پر کاربن کریڈٹ اسکیموں میں حصہ لے کر ساحلی برادریوں کو مالی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔

تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے ان ساحلی علاقوں میں تبدیلیاں آ رہی ہیں اور مختلف علاقوں میں خواتین تعلیم بھی حاصل کر رہی ہیں اور مختلف شعبوں میں کام بھی کر رہی ہیں، خاص طور پر شہروں میں جیسے کوئٹہ میں تعلیم، صحت، اور این جی اوز میں خواتین کی شرکت میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ لیکن دیہی اور قبائلی علاقوں میں خواتین کو ابھی بھی روایتی رکاوٹوں کا سامنا ہے، جہاں ان کے لیے باہر کام کرنا ایک مشکل فیصلہ ہوتا ہے۔جس میں مردوں کا دباؤ، سماجی پابندیاں، اور عدم تحفظ شامل ہیں۔

یہ کہنا درست ہو گا کہ بلوچستان میں خواتین کا گھر سے نکل کر کام کرنا ترقی پذیر ہے، مگر ابھی بھی بڑے پیمانے پر روایات اور ثقافتی عوامل اس پر اثر انداز ہیں۔ لیکن اس کےباوجود بلوچستان کی خواتین  پردے میں رہ کر بھی اپنے زور بازو سے ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتی نظرآتی ہیں

میڈیازا نیوز ویڈیوز دیکھنے کہ لئے یہاں کلک کریں

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

حقائق کی جانچ کے ساتھ معتبر رپورٹنگ کسی چیلنج سے کم نہیں۔

ماحولیاتی آلودگی انسانی زندگیوں کے لئے خطرناک

تمباکو نوشی کا بڑھتا استعمال: نسلوں کی تباہی کا سامان